نئی دہلی،5 اگست (یو این آئی) بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) نے کہا ہے کہ ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر سخت نگرانی رکھی جارہی ہے اور حالات معمول پر ہیں۔بنگلہ دیش میں پیر کو فوج کے ذریعہ شیخ حسینہ حکومت کا تختہ الٹنے کے درمیان بی ایس ایف نے سوشل میڈیا کے ذریعے کہا ہے’’بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) دلجیت سنگھ چودھری، ڈی جی ایسٹرن کمانڈ پہلے سے موجود ہیں۔ ہندوستان بنگلہ دیش سرحد پر حالات معمول پر ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی دستے بین الاقوامی سرحد پر پیش رفت اور صورتحال کے بارے میں چوکس اور مستعد ہیں۔
بی ایس ایف نے کہا ہے کہ ’’ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر صورتحال پر گہری نظر رکھی جارہی ہے تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے نمٹا جاسکے‘‘۔
حکومت نے بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد کے ساتھ شمال مشرقی ریاستوں کے لیے خصوصی وارننگ جاری کی ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعے کے پیش نظر بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے 4096 کلومیٹر طویل ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر چوکسی بڑھا دی ہے اور اپنی تمام اکائیوں کے لیے ’ہائی الرٹ‘ جاری کر دیا ہے۔
دریں اثنا، بی ایس ایف کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) دلجیت سنگھ چودھری اور دیگر سینئر کمانڈر سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ پہنچ گئے ہیں۔ڈی جی نے شمالی 24 پرگنہ ضلع اور سندربن علاقے میں سیکورٹی تیاریوں کا جائزہ لیا۔ کولکاتہ میں بی ایس ایف ساؤتھ بنگال فرنٹیئر کے ترجمان نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر بی ایس ایف نے پوری ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر الرٹ جاری کر دیا ہے اور سرحد پر تعینات فوجیوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔ پڑوسی ملک کے ساتھ سرحد پر تعینات تمام اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں اور اب تمام یونٹس کو مکمل چوکس رہنے کو کہا گیا ہے۔
بی ایس ایف نے آسام کے کریم گنج میں ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر بھی ’ہائی الرٹ‘ جاری کر دیا ہے۔ساتھ ہی میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونراڈ سنگما نے بھی ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے پیر کی رات سے سرحد پر امتناعی احکامات نافذ کر دیے ہیں۔دریں اثنا، بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ جب اتر پردیش کے ہنڈن ایئر فورس اسٹیشن پہنچیں تو ان کا استقبال ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور فضائیہ کے اعلیٰ حکام نے کیا۔
اس دوران حسینہ واجد اور مسٹر ڈووال کے درمیان طویل بات چیت ہوئی۔ تاہم کوئی بھی عہدیدار مذاکرات کے بارے میں کچھ کہنے کو تیار نہیں۔