میانمار کی برطرف جمہوریت پسند رہنما کی مجموعی قید 33 سال ہوگئی
ینگونر (یو این آئی) میانمار کی فوجی حکومت نے نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سانگ سوچی کو سزا دینے کاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید 7 سال قید کی سزا سنا دی۔ غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق میانمار کی برطرف جمہوریت پسند رہنما آنگ سانگ سوچی کے خلاف درج مقدمات کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد انہیں مزید 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جس کے بعد انہیں مجموعی طور پر 33 برس قید کا سامنا کرنا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس میانمار میں فوجی قبضے کے بعد سے 77 سالہ آنگ سانگ سوچی کے خلاف درج بدعنوانی، غیرقانونی طور پر واکی ٹاکیز رکھنے اور کورونا وائرس پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے جیسے تمام مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں جس کے بعد ان کی مجموعی قید 33 سال ہوگئی ہے۔رپورٹ کے آنگ سانگ سوچی کو ایک حکومتی وزیر کے لیے ہیلی کاپٹر کی خدمات لینے، اسے چلانے اور خریدنے سے متعلق بدعنوانی کے پانچ مقدمات میں 7 برس کی سزا سنائی گئی ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ریاست کو نقصان پہنچایا۔ایک قانونی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آنگ سانگ سوچی اچھی صحت کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئیں۔
ذرائع نے کہا کہ رہنما کے خلاف درج تمام مقدمات مکمل ہوگئے ہیں اور اب ان کے خلاف مزید کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔صحافیوں کے عدالتی سماعت کے دوران شریک ہونے سے روکا گیا ہے جبکہآنگ سانگ سوچی کے وکلا کو بھی میڈیا سے بات کرنے کی جازت نہیں دی گئی۔رپورٹ کے مطابق فیصلے سے قبل فوج کے زیر تعمیر دارالحکومت نیپیداو میں جیل کی طرف جانے والی سڑک ٹریفک سے خالی تھی۔
ذرائع کے مطابق آنگ سانگ سوچی کے ساتھ شریک جرم میانمار کے سابق صدر کو بھی اتنی ہی سزا سنائی گئی تھی، تاہم دونوں رہنما سزا کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے میانمار میں بغاوت کے بعد سے پیدا ہونے والی صورت حال پر پہلی قرارداد میں فوجی حکام سے آنگ سانگ سوچی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔