نئی دہلی:عظیم اسکالر، صدر مسلم پرسنل لا بورڈاور ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی وفات پرشعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام پروفیسر عبدالماجد قاضی صدر شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صدارت میں تعزیتی جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں شعبہ کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ نے شرکت کی اور مولانا محمد رابع رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر اپنے گہرے رنج کا اظہار کیا اور خراج عقیدت پیش کیا ۔
پروگرام کے آغاز میں شعبہ کے استاذ پروفیسر نسیم اختر ندوی نے تمام شرکاء کا استقبال کیا اور افتتاحی کلمات میں کہا کہ ماضی قریب میں ملک کے کئی جلیل القدر علماء نے اس دار فانی کو الوداع کہا جو ہندوستانی مسلمانوں کی نہ صرف قیادت کررہے تھے بلکہ ان کی مسیحائی بھی کررہے تھے اور انھیں امت کی بڑی فکر بھی رہتی تھی ان میں خاص طور سے جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری رحمۃ اللہ علیہ، امارت شرعیہ بہار کے امیر مولانا ولی رحمانی علیہ الرحمہ اورمولانا محمد رابع رحمۃ اللہ علیہ ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء اورصدر مسلم پرسنل لا بورڈ قابل ذکر ہیں جن کی وفات سے مجھے ذاتی طور پر بڑا غم ہوا ۔ مولانا محمد رابع علیہ الرحمہ جہاں ایک طرف عظیم اسکالر تھے تو دوسری طرف تواضع، خاکساری، اور اعلی ظرفی کی مثال بھی تھے آپ کی شخصیت بڑی بے نیاز شخصیت تھی۔
آپ کے بعد شعبۂ عربی، دہلی یونیورسٹی کے استاذڈاکٹر مجیب اختر ندوی نے مولانا کی وفات پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے ندوہ میں مولانا سے جزیرۃ العرب اور الادب العربی بین عرض ونقد دوکتابیں پڑھنے کا موقع ملا ، مولانا کی تدریس کا اسلوب بہت دلکش اور اچھا ہوتا تھا جس سے ہم طلبہ کو کافی فائدہ ہوتا تھا بلکہ آج بھی آپ کے پڑھائے ہوئے دروس ہمیں یاد ہیں، مولانا کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے ہر شاگر کی فکر رکھتے تھے اور ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔
آپ کے بعد سابق صدر شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسرحبیب اللہ خان نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ مولانا رابع رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ایک عظیم حادثہ ہے ، آپ کی شخصیت بڑی مقبول شخصیت تھی آپ کی وفات کے بعد دنیا میں ندوہ کے فارغین جہاں جہاں ہیں وہ تعزیتی جلسے کررہے ہیں اور سب مغموم ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے ۔مولانا سے جب بھی میری ملاقات ہوتی تھی تو آپ ہماری علمی سرگرمیوں کے بارے میں ضرور دریافت کرتے تھے ، آپ سے سب کو بڑی عقیدت تھی اور آپ کے اخلاق، توضع، انکساری سے ہر کوئی متاثر تھا۔مولاناکے اندر بہت سی خوبیاں تھیں جنھیں ہمیں اپنانا چاہئے۔
آپ کے بعد سابق صدر شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر محمد ایوب ندوی نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ مولانا محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ ایک مثالی استاذ کے ساتھ ایک اچھے مربی بھی تھے ، زمانۂ طالب علمی میں جب میں عید الاضحی کی تعطیل میں اپنے وطن نہیں جاتا تو میں آپ کے وطن رائے بریلی چلاجایا کرتا تھا اور وہاں مولانا کے خاندان کے بچوں کے ساتھ رہتا مولانا میرا خیال اپنے خاندان کے بچوں کی طرح رکھتے تھے۔ آپ بہت نرم گفتار اور نرم طبیعت کے مالک تھے، آپ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے نیز میں نے آپ کو ہر چیز میں بہت محتاط دیکھا۔
آپ کے بعد ڈاکٹر محفوظ الرحمن نے مولانا کو خراج عقیدت پیش کرت ہوئے کہا کہ مولانا کے یہاں بڑا توسع تھا وہ ہرایک کو خوش آمدید کہتے تھے، آپ عصر حاضر کے عظیم مفکر کے ساتھ ایک مثالی استاذ اور مربی بھی تھے آپ کی شخصیت سے ہرایک کو عقیدت تھی اس دورمیں مولانا کی حیثیت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سایہ کے جیسی تھی، آپ ایک اچھے استاذ اور قائد اوربہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔
موصوف کے بعد ڈاکٹر عظمت اللہ اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ مولانا محمد رابع رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے الادب العربی کتاب پڑھی ہے آپ کا طریقۂ تدریس بڑا دلکش ہوا کرتا تھا اور آپ کا پڑھا یا ہوا درس ہم طلبہ کو یاد ہو جاتا تھا، آپ طلبہ کو محنت اور شوق کے ساتھ کام کرنے کا مشورہ دیتے تھے،آپ اخلاق، تواضع و خاکساری کے اعلی مقام پر فائز تھے۔
اس تعزیتی جلسہ میںاساتذہ کے علاوہ بہت سے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ نے بھی تعزیتی کلمات پیش کیا اور اپنے غم کا اظہا رکیا ۔
اس جلسہ کے اختتام پرپروفیسر عبدالماجد قاضی صدر شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے صدارتی خطاب میں مولانامحمد رابع رحمۃ اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی ذات کردار کے لئے ایک اعلی نمونہ تھی آپ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین تھے اور مولانا کی زندگی میں ان کے سایہ کی طرح رہتے تھے مولانا کی وفات کے بعد آپ انکی ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی تمام خوبیوں او ر صفات کے بھی وارث ہوئے اس لئے آپ کی وفات کے بعد بڑی محرومی کا احساس ہورہا ہے، مولانا رابع علیہ الرحمہ کے اندر امت کے لئے بڑا درد تھا آپ کو اس کی بڑی فکر رہتی تھی، آپ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ تعمیری کا م کیا، آپ ایک اچھے استاذ کے ساتھ ساتھ ایک اچھے رائٹر اور ادیب بھی تھے آپ کے علم میں بڑی وسعت اور گہرائی تھی نیز بڑا تنوع تھا، آپ ہر بات پر گہری نظر رکھتے تھے، آپ کی تدریس میں شخصیت سازی کا عنصر ہوا کرتا تھا، مولانا کے یہاں اخلاقی بلندیاں اور بڑی خوبیاں تھیں، آپ حقیقت میں عصر حاضر میں علماء کے اخلاق کے سفیر اور نمونہ تھے۔ پروفیسر محمد ایوب ندوی کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا۔