نئی دہلی(پریس ریلیز):۔’’بچوں کاادب ارادی یا غیر ارادی طور پر لکھا گیا‘‘ کے عنوان سے جامعہ کمیونٹی ریڈیو پر بچوں کے ادب پر ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں شرکت کرنے والوں میںڈاکٹر فیاض احمد پرتھم ایجو کیشن ،’’ بچوں کے ادب میں سائنس کی عکاسی ‘‘کے مصنف ادیب وصحافی حبیب سیفیؔ ’’دادا بیتی ‘‘کے مصنف ماہر ادب اطفال سراج عظیم اورسائرہ بانو پرتھم ایجو کیشن فاؤنڈیشن ،نے شرکت کی ،جبکہ نظامت ڈاکٹر شکیل اختر نے فرمائی ۔سوالات کے جواب دیتے ہوئے مذاکرہ کے شرکاء نے غیر رسمی مذاکرہ کے بہتر نتائج سامنے آنے کی بات کہی۔ڈاکٹر فیاض احمد نے کہا آج کے بچوں کی تجرباتی دنیا کچھ یکسانیت کے باوجود بالکل ویسی نہیں ہے جیسی آج سے 20یا 25سال پہلے کی بچوں کی تھی ۔ ایک طرف ان کی تجرباتی دنیا میں رسائل وجرائد بھی شامل ہیں اور سٹیلائٹ ٹی وی کے 500سیزیادہ چینل اور سوشل میڈیا بھی ہے بچوں کے سامنے کیسے ایک متبادل پیش کیاجائے ،یہ غور وفکر کا موضوع ہے۔حبیب سیفیؔ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اردو معاشرہ بھلے کمزور ہو رہا ہے، اردو زبان کمزور ہوتی دکھ رہی ہے ،لیکن اردو زبان میںبچو ں کاادب تخلیق کرنے والوں کو بہ ہرحال وقت کی ساتھے چلنے کی ضرورت ہے۔ ایساسائنسی ادب تخلیق کرنے کی ضرورت ہے،جس سے ملک وقوم کی خدمات انجام دی جاسکیں ۔آج کابچہ خیالوں کی دنیا میںیا پریوں کی کہانیوں سے بہلے والا نہیں،اس کے آگے حقائق لارکھنے کی ضرورت ہے۔
سراج عظیم کے مطابق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے جو بھی ادب بچوں کے لئے لکھا وہ شعوری طور پر لکھا،ان کی نظر میں ایک مقصد خاص تھا،جسے پانے کے لئے وہ بچوں کی نیک وصالح تربیت پر زور دیتے تھے۔یہ کہنا کہ غیر شعوری طور پر اقبال نے ادب لکھا درست نہیں۔کوئی بھی ادیب بچوں کا ادب یوں ہی نہیں لکھ سکتا ۔جب تک لکھنے والا قوت ارادی کاحامل نہیں ہوگا،مضبوط اور پختہ ارادوں کے ساتھ آگے بڑھنے والے بچوںکی خاطر خواہ تعداد نہیں دیکھ سکتا۔سائرہ بانونے کہا بچوں کو بہتر شہری بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اگلے وقتوں کے طرح گھروں سے ماؤں کے ذریعے کہانی سناکر کی جائے،میں خود کہانیاں لکھتے وقت اس بات کاخیال رکھتی ہوں کہ بچوں کارد عمل کسی بھی کہانی کو سننے کے بعد کیا ہوتا ہے۔چہرے کے ہاؤ بھاؤ سے مجھے اندازہ ہوجا تا ہے کہ یہ کہانی بچوں میں مقبول ہو گی کہ نہیں،آسان زبان میں مختصر کہانی لکھنا میری کوشش کا حصہ بنا رہتا ہے۔مذاکرہ میں شعبہ ماس کمیونیکشن سے وابستہ ڈاکٹر شکیل اخترنے عہد حاضر میں ادب اطفال کی ضروریات کو پورا کرنے والے بچوں کا ادب تخلیق کرنے کرانے کے سلسلے میں فکر مندی جتاتے ہوئے عمدہ سوالات قائم کیے، جن کے متعلق بہت ہی معنی خیز نکات نکل کر سامنے آئے۔ڈاکٹر شکیل اختر نے اختتامی کلمات میں کہا ہمیں امید کی کرن دیکھ رہی ہے،اردو میں معیاری ادب اطفال لکھنے کی ضرورت ہے۔