بیدر(محمدامین نواز)۔موجودہ معاشرے اور خصوصاً نوجوان طبقہ میں بے شمار برائیاں پائی جا رہی ہیں، جن کی وجہ سے مشکلات اور متعدد مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں مگر بعض برائیاں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں کہ ان سے دیگر بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں اگر ایسی بنیادی برائیوںپر قدغن لگا دی جائے، ان کا سد باب کردیا جائے تو جلد ہی دیگر برائیاںبھی ختم ہوجائیں گی۔ ان بنیادی برائیوں میں دین سے دوری ،مغربی فیشن ، مخلوط تعلیم ، موبائیل فون کا غلط استعمال ،شادیوں میں بے جا خرچ و غیر اسلامی رسومات وغیرہ ہیں ۔ان خیالات کا اِظہار آج بیدر کی تاریخی جامع مسجد میں رابطہ ملت ضلع بیدر کی جانب سے منعقد خطبہ جمعہ کے موقع پر بعنوان فکری و تہذیبی ارتداد ،اسباب و حل‘‘پر خطاب کرتے ہوئے مولانا مہدی حسن عینی قاسمی ڈائریکٹر اسلامک اکیڈیمی دیوبند ، آرگنائزر اصلاح و معاشرہ کمیٹی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہر قوم نوجوانوں پر انحصار کرتی ہے،قوموں کی ترقی نوجوانوں کے عمل سے جڑی ہوتی ہے،ان کی سرگرمی،مستقبل کا رخ متعین کرتی ہے، تا ریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ ہر دور میں نوجوانوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔والدین و سرپرستو ںکو چاہئے کہ اس جانب خصوصی توجہ کرتے ہوئے اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کیلئے فکر مند رہیں ۔اگر والدین و سرپرست اولاد کی پرورش و تعلیم و تربیت میں لاپرواہی کرتے ہیں تو نوجوانوں میں نت نئے برائیاں جنم لیتی ہیں ۔نوجوان منشیات کے عادی ہورہے ہیں ۔منشیات کا استعمال ایسی خبیث لعنت ہے جس کو لگ جاتی ہے زندگی بھر چھوٹنے کا نام نہیں لیتی، اس کی وجہ سے مصائب و جرائم میں اضافہ ہوتا ہے، نشہ آور اشیاء کے استعمال کا اثر عموماً عادی افراد تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ نسلوں میں بھی منتقل ہوتا ہے۔یہ خبیث لعنت جسمانی قوت کو تو متاثر کرتی ہی ہے ساتھ ہی عقل وفہم میں بھی فتور پیدا کردیتی ہے۔ مہذب لباس کو چھوڑ کرفیشن کے نام پر نوجوانوں میں ایسے لباس زیب تن کئے جارہیں جس سے اخلاقی معیار تو گرجاتا ہے مگر برائیاں عام ہوجاتی ہیں ۔
مولانا نے کہا کہ مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ رہتے ہیں، جہاں شیطانیت کا راج کھلے عام ہوتا ہے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے اوربے پردگی عام ہورہی ہے۔ مسلمانوں کو اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہے تاکہ ارتداد سے بچ سکیں۔نوجوانو ںمیں موبائیل فون کا غلط استعمال اخلاقیات میں بگاڑ پیدا کررہا ہے ۔
مولانا نے کہا کہ فی زمانہ شادیوں میں لاکھوں لاکھ روپے خرچ کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، لوگ اس کے لیے سودی قرضہ لینے سے بھی نہیں شرماتے لاکھوں روپے قرض لے کر شادی تو ہوجاتی ہے مگرقرض ڈوبے والدین کافی پریشان ہوجاتے ہیں ۔اگر نکاح کو آسان بناکر شادیاں کی جاتی ہیں تو ایسے حالات پیدا نہیں ہوتے ۔جہیز کی لعنت کے علاوہ معاشرہ میں والدین کی نافرمانی ،دین سے دوری اور شادیوں میں بے جا رسومات معاشرہ میں کافی بگاڑ پیدا کردئیے ہیں ۔آج کے دور میں نکاح جیسی سنت کو آسان بنانے کی بجائے مشکل بنارہے ہیں ۔
مولانا نے والدین سے نہایت ہی فکر انگیز اپیل کی کہ والدین اپنی اولاد جوو تمہارے لئے ایک بہترین سرمایہ ہے ان کی پرورش دین اسلام کے بتائے ہوئے ہدایات پر کریں اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔مولانا نے نوجوانوں سے بھی کہا کہ نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں، حق وصداقت کے علم بردار عدل وانصاف کے داعی، کردار کے غازی بنیں، عفت نزاہت، تقوی، صلہ رحمی، اخلاق ومروت کو شعار بنائیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اسلاف کے عمل و کردار کو اپنائیں، کسی بھی حالت اور مشکل میں دامن اسلام ہاتھ سے نہ چھوٹے، تبھی اللہ تعالی کے محبوب بندے بن سکتے ہیں،عرش الہی کے سایہ میں جگہ پاسکتے ہیں۔نوجوان طاقت وقوت کے اعتبار سے سب اعلی مرحلے میں ہوتاہے اس لئے اس ذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے نوجوانوںکوچاہئے کہ وہ اپنی اصلاح کیلئے متفکر ہوں،اپنے والدین کے حقوق ادا کریں،پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاو کریںاور کوشش کریںکہ مصروفیات سے تھوڑا وقت نکال کرسیرت رسول کریم،صحابہء کی سیرت و واقعات پڑھیں ، آپس میںان کو سنانے کا اہتمام کریں اور خود کو ان اوصاف و کردار سے مزین کرنے کی کوشش کریں۔اللہ تعالی نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ڈاکٹر عبدالقدیر صدر رابطہ ملت ضلع بیدر نے ابتداء میں مولانا کا تعارف پیش کیا اور جناب محمد معظم معتمد رابطہ ملت ضلع بیدر نے تمام سے اِظہار تشکر کیا ۔