جمعیۃ علماء راجستھان کے اجلاس عام میں صدرجمعیۃ نے کہا” نفرت کی سیاست کرنے والے ملک کے وفادار نہیں”
نئی دہلی (یو این آئی)کشمیر سے منی پور تک خوف و ہراس کے ماحول پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک اس وقت خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہا ہے اور اس ماحول کو ختم نہ کیا گیا تو ملک کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔یہ بات انہوں نے جمعیۃ علماء راجستھان کے اجلاس عام میں جاری ایک پیغام میں کہی انہوں نے کہاکہ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کاخواب نہیں دیکھا تھا جس میں نفرت، خوف و دہشت کے سائے میں ملک کے عوام رہتے ہوں۔ انہوں نے کہاکہ حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعاربنالیا ہے لیکن میں یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے چلاکرتی ہے۔مولانا مدنی نے نفرت مٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ نفرت کا جواب نفرت نہیں محبت ہے، آج کے ماحول میں محبت ہی ایک ایساکارگر ہتھیار ہے جس سے ہم نفرت کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہم نے ہرہر موقع پر وطن سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دیا ہے، یہ ہماراملک ہے، آزادی ہمیں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے، ایسے میں ہمارایہ فرض ہے کہ ہم ان مٹھی بھر فرقہ پرست عناصرکے ہاتھوں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کوضائع نہ ہونے دیں۔انہوں نے کہاکہ ہم امن اورمحبت کے داعی بن جائیں اس لیے ہمیں اپنی بیاہ شادیوں اور دیگر تقریبات میں برادرانِ وطن کو بلانا چاہیے، اسی طرح ان کی خوشی اور غم میں اپنا مذہبی فرض سمجھ کر، وہ بلائیں یا نہ بلائیں، شریک ہونا چاہئے۔ آپ کا یہ کردار پرانی تاریخ کو زندہ کرنے میں بڑا قیمتی ثابت ہوگا۔ وہ لوگ ہرگز ملک کے وفادارنہیں ہوسکتے جو نفرت کی آگ سے ملک کے امن وامان اوراتحادکوتباہ وبربادکرنے پر تلے ہیں، بلکہ ملک کے سچے وفادار وہ ہیں جو ایسے صبرآزمادورمیں بھی امن واتحادکاپیغام دیکر دلوں کو جوڑنے کی بات کررہے ہیں۔
مولاناارشد مدنی نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ قوموں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امتحان کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں مگرزندہ قومیں مایوسی کا شکارنہیں ہوتیں بلکہ وہ اس طرح کے ماحول میں بھی اپنے لئے آگے بڑھنے کا راستہ نکال لیتی ہیں۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں اس لئے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، ہمیں دوراندیشی اورسوجھ بوجھ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ الورکا یہ علاقہ میوات سے ملاہواہے، جولائی کے مہینہ میں نوح اوراس کے آس پاس کے علاقوں میں جو کچھ ہوا اس سے آپ سب کماحقہ واقف ہیں،آج کی ترقی یافتہ دنیامیں اس طرح کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض ایسی طاقتیں موجودہیں جو امن واتحادکی دشمن ہیں، ورنہ شوبھایاتراجیسے مذہبی پروگرام میں تلواراور اسلحہ لیکر چلنے اور اشتعال انگیزی کی کیا ضرورت تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصدو شوبھایاترانکالنانہیں تھا بلکہ اس علاقہ کے امن واتحادکوسبوتاژکرنا تھا، جبکہ دنیا کا ہر مذہب انسانیت، رواداری، محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اس لیے جو لوگ مذہب کا استعمال نفرت اور تشدد برپا کرنے کے لئے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے ہیں۔ بہرحال دونوں طرف سے جو ہوااچھا نہیں ہوا، جمعیۃعلماء ہند اپنے قیام کے دن سے ہی امن واتحاداورفرقہ ورانہ خیرسگالی کی پیامبررہی ہے، کیونکہ اس کا مانناہے کہ امن واتحادکے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا، فرقہ پرستی اورمذہبی شدت پسندی امن واتحادکی ہی نہیں ترقی کی بھی دشمن ہے۔ فسادبرباکرنے والوں کو یہ خوش فہمی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک مخصوص فرقے کو نقصان پہنچاکر نفسیاتی طورپر انہیں کمزورکررہے ہیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے، فسادسے کسی فرقہ یابرادری کا نقصان نہیں ہوتابلکہ ملک کی ترقی اورمعیشت کو نقصان پہنچتاہے۔
انہوں نے کہا کہ میوات کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب 80 فیصدہے اوراہم بات یہ ہے کہ فسادکے دوران اکثریت میں ہونے کے باوجودانہوں نے اپنے کسی غیر مسلم پڑوسی کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ہمارے پاس تواطلاعات یہ بھی ہیں کہ بہت سے گاؤں میں مسلمانوں نے مندروں کے اردگردرات رات بھر پہرادیا تاکہ کوئی شخص ان مندروں کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکے، انتہائی امیدافزابات یہ بھی ہے کہ میوات علاقے کے بہت سے غیر مسلموں نے اخباری نمائندوں اورٹی وی چینلوں سے گفتگوکرتے ہوئے واضح طورپر یہ کہا کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود یہاں انہیں کبھی کسی طرح کا ڈراورخوف محسوس نہیں ہوا، تمام لوگ یہاں امن و اتحاد اور باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہ رہے ہیں، یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک کی اکثریت اب بھی امن پسند ہے اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلاکر تشددبرپاکرنے والے مٹھی بھرلوگ ہیں جو ملک میں جگہ جگہ اپنی شرانگیزیوں اورحرکتوں سے امن وامان کی فضاکو خراب کرتے رہتے ہیں۔
مولانا مدنی نے ہریانہ اور راجستھان کی کھاپ پنچایتوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ بڑی ناانصافی ہوگی اگر ہم اس اہم پروگرام میں ہریانہ و راجستھان کی اُن کھاپ پنچایتوں، سماجی تنظیموں، سکھوں اور دیگر لوگوں کا خیرمقدم نہ کریں، جنھوں نے نوح و اطراف میں ہوئے فساد کے بعد مسلمانوں کے لیے پیدا کردہ بحرانی صورتِ حال میں فرقہ وارانہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میوات کے مسلمانوں کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کردیا۔