واشنگٹن(ایجنسیاں): عالمی بینک کے سربراہ ڈیوڈ مالپاس نے اعلان کیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں پر صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ اختلافات کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بدھ 15 فروری کو کہا کہ وہ اپنی پانچ سالہ مدت کے اختتام سے دس ماہ قبل جون میں ’انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ‘ کو خیرباد کہہ دیں گے۔
خیال رہے کہ ڈیوڈ مالپاس کے مستعفی ہونے کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب دنیا کے کئی ممالک شدید مالی مسائل کا شکار ہیں۔ عالمی بینک کا سربراہ مقرر کرنا امریکی صدر کا اختیار ہے، ان کا جانشین بائیڈن مقرر کریں گے۔ مالپاس سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے قریب تھے، جنہیں 2019 میں سابق صدر براک اوباما نے ینگ کِم کے استعفیٰ دینے کے بعد اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔
مالپاس نے ٹرمپ کی 2016 کے دوبارہ انتخابی مہم میں کام کیا تھا اور عالم ی بینک میں جانے سے قبل ٹریژری انڈر سکریٹری برائے بین الاقوامی امور تھے۔ بائیڈن کے مقابلے میں نظریاتی طور پر ٹرمپ کے زیادہ قریب مالپاس، گزشتہ سال نیویارک ٹائمز کے ایک پروگرام میں اس بات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے نظر آئے کہ ماحولیاتی تبدیلی انسانوں سے بنی گرین ہاؤس گیسوں کے نتیجے میں ہوئی ہے۔
اس موضوع پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں سائنسدان نہیں ہوں۔‘ اس پر انہیں سابق نائب صدر الگور سمیت کئی دوسرے لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن کچھ دنوں بعد مالپاس نے یو ٹرن لیتے ہوئے عالمی بینک کے عملے کو لکھا کہ یہ واضح ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہا ہے۔
عالمی بینک کو تیل اور گیس کے منصوبوں کی مالی معاونت جاری رکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے، مالپاس نے کہا ’’ترقی پذیر ممالک کو بے مثال بحرانوں کا سامنا ہے، مجھے فخر ہے کہ بینک نے اس بحران کا موثر طریقے سے سامنا کیا ہے۔‘‘
مالپاس نے اس سے قبل ریپبلکن صدور رونالڈ ریگن اور جارج ایچ ڈبلیو بش کے ساتھ کام کیا تھا۔ 1993 میں وہ انویسٹمنٹ فرم بیئر اسٹارنز کے چیف اکانومسٹ بنے، جو 2008 کے مالیاتی بحران میں منہدم ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اقتصادی مشاورتی فرم کی بنیاد رکھی اور سینیٹ کے انتخابات میں ریپبلکن نامزدگی کے لیے ناکام بولی لگائی۔