علی گڑھ،(پریس ریلیز): اسکالرز، ادیبوں اور فیکلٹی ممبران نے مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار کے ملک الشعراءمحمد طالب آملی کی حیات اور شعری خدمات پر مبنی ایک روزہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان ’محمد طالب آملی کی خدمات اورفکر ‘ میں سیر حاصل گفتگو کی۔ سیمینار کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف فارسی ریسرچ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے ایران کلچر ہاوس، نئی دہلی کے تعاون سے کیا۔افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو کے پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ مغل بادشاہوں نے سبھی جغرافیائی خطوں اور سماج کے طبقات کی نمائندگی کرنے والے شعرائ، موسیقاروں اور فنکاروں کی کثیر تعداد میں سرپرستی کی، جو کہ کمیونٹیز کے درمیان سماجی و ثقافتی روابط ، اور حکمرانوں کے غیر متعصبانہ رویہ کا نتیجہ تھا۔ ہندوستان اور ایران کے قریبی تاریخی و ثقافتی تعلقات کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایران کو اپنا ہمسایہ سمجھتا ہے اور وہاں سے تقریباً 20 فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر گلریز نے کہا ”تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریہ کے بجائے تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے نظریہ کو اپنانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے“۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت قدیم دور سے ثقافتی تبادلے کئے ہیں جنھیں اجاگر کرنا چاہئے اور نوجوانوں کو اس سے متعارف کرنا چاہئے۔ پروفیسر گلریز نے اے ایم یو اور ایران کے اداروں کے درمیان باہمی تعاون کے راستے تلاش کرنے اور نوجوان طلباءو طالبات کے لئے فنون لطیفہ، لوک موسیقی، ادب اور شاعری کی تفہیم کے مختصر مدتی کورس شروع کرنے پر زور دیا۔
ایران کلچر ہاوس کے کلچرل کونسلر ڈاکٹر محمد علی ربانی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ طالب آملی ایران سے ہندوستان آئے اور اپنی شعری حس و ذکاوت اور مخصوص انداز میں نظمیں کہنے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے اور دربار کے ملک الشعراءقرار پائے ۔ ڈاکٹر ربانی نے ہندوستان اور ایران کے ثقافتی اور ادبی تعلقات پر تفصیل سے گفتگو کی ۔پروفیسر آذرمی دخت صفوی، مشیر اور بانی ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف پرشین ریسرچ نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ طالب آملی ہند- فارسی طرز کی شاعری کے سب سے بڑے نمائندے تھے اور ان کے شعری انداز کو بعد میں پورے ہندوستان میں وسیع پیمانے پر رواج ملا۔وسطی ایشیا، مغربی ایشیا، برصغیر ہند و پاک اور عثمانیوں کے ترکی میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، عسکری اور ادبی محاذوں پر پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں ہندوستان اور ایران کے ادبی و لسانی منظر نامے پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکبر اور جہانگیر کے دورِ حکومت میں ادب و شاعری اور فنون لطیفہ کو زبردست عروج حاصل ہوا، اور طالب آملی فارسی شاعری کے ہندوستانی بہاریہ عہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پروفیسر صفوی نے مزید کہاکہ اُن دنوںمیں متعدد شاعر، فنکار اور موسیقار ہندوستان آئے کیونکہ اسے ’دارالامان‘ یعنی امن و سلامتی کی جگہ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے طالب آملی کے کئی اشعار سنائے اور ان کے شعری انداز کی نمایاں خصوصیات پر روشنی ڈالی۔پروگرام میں بحیثیت مہمان اعزازی شرکت کرتے ہوئے مازندران یونیورسٹی، ایران کے پروفیسر مرتضیٰ محسنی نے کہا کہ طالب آملی ایران کے مازندران کے علاقے سے ہندوستان آئے تھے جو فن اور ثقافت کے اعتبار سے بہت مالا مال خطہ ہے۔پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے کہا کہ ہندوستان کے لیے دنیا ایک کنبہ ہے اور وسودھیو کٹمبکم قدیم زمانے سے ہی ہمارا نعرہ رہا ہے۔انہوں نے سماج میں بھائی چارے، اتحاد اور یکجہتی کی اقدار پر زور دیا اور طالب آملی کو ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کا نمائندہ قرار دیا۔اس موقع پر شعبہ فارسی کی چیئرپرسن پروفیسر رعنا خورشید نے بھی خطاب کیا۔قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد عثمان غنی نے مہمانوں کا جوش و خروش کے ساتھ خیرمقدم کیا اور حاضرین سے ان کا تعارف کرایا۔سیمینار میں متعدد ہندوستانی اور ایرانی مندوبین نے شرکت کی۔اس موقع پر پروفیسر نعیمہ خاتون، پرنسپل، ویمنس کالج، اے ایم یو، پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی، اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور طلباءو طالبات کی کثیر تعداد موجود رہی۔
ڈاکٹر محمد احتشام الدین نے تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دئے۔افتتاحی اجلاس کے بعد ایرانی فنکار استاد علی اصغر رستمی، مرتضیٰ نیک زاد اور بروز بہرامی نے ایرانی لوک موسیقی اور نظم خوانی پر مبنی روایتی پروگرام ’طالب خوانی‘ میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔