سری نگر،12مئی(یو این آئی) جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اتوار کو کہا کہ الیکشن آتے جاتے رہتے ہیں، یہ پہلا پارلیمانی الیکشن نہیں ہے اور نہ آخری ہوگا، 5سال پہلے بھی الیکشن ہوئے اور 5سال بعد بھی الیکشن ہونگے لیکن موجودہ الیکشن کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کیونکہ 5اگست2019کے بعد یہ پہلا بڑا الیکشن ہے۔انہوں نے کہاکہ پانچ اگست کے روز ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، ہماری پہچان، ہماری شناخت اور ہمارا وجود ختم کیاگیا، موجودہ الیکشن میں یہاں کے عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے یہ پیغام دینے کا موقع فراہم ہوا ہے کہ ہمیں یہ فیصلے قبول نہیں ہیں۔ان باتوں کا اظہار موصوف نے سوپور میں عوامی ریلی سے خطاب کے دوران کیا۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے تک میرا یہاں الیکشن لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن جب بی جے پی، اس کی اے، بی اور سی ٹیمیں، مختلف ایجنسیاں اور انتظامیہ نے یہاں کے سیاسی کے حالات میں مداخلت اور کھلواڑ کرنا شروع کردیا تو پارٹی نے مجھے یہاں سے میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ آج بدقسمتی سے ہم پھر اس دور سے گزر رہے ہیں جس سے ہمیں مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا کر نکالا تھا۔ مرحوم نے ہمیں سیاسی غلامی سے نجات دلاکر یہاں جمہوریت قائم کی، آئینی اور جمہوری اداروں کا قیام عمل میں لایا تاکہ عام لوگو ں کی شنوائی ہوسکے، دفعہ 370کی طاقت سے غریب عوام کو زمینوں پر مالکانہ حقوق دیکر یہاں کے عوام کو اقتصادی غلامی سے نجات دلائی لیکن آج ہمیں پھر اُسی جانب دھکیلا جارہاہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ جمہوریت کا تہیہ تیغ کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے، دلی والے پھر سے ہمیں اُسی اقتصادی غلامی کی طرف دھکیل کیلئے ہماری زمینوں کو کسی نہ کسی بہانے لے جانے کا کام کررہی ہے۔ان کے مطابق سڑک، ریل، کارخانوں اور دیگر بہانوں کے ذریعے زمینوں سے بے دخل کیا جارہاہے، روشنی ایکٹ کے تحت جن کو اراضی ملی تھی وہاں بھی بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ 2014کے انتخابات کے بعد پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس نے بھاجپا کو حمایت دیکر یہاں حکومت میں لایا، جبکہ اُس وقت ہم نے پی ڈی پی والوں سے غیر مشروط حمایت دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے آپ 6سال حکومت کیجئے ، بس بھاجپا کو یہاں مت لایئے لیکن ان لوگوں نے ہمیں طعنے دیئے اور اس تاریخی ریاست کو تہس نہس کر ڈالا۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ 5اگست 2019کے بعد یہاں کے لوگوں کو سختی، پریشانی اور مشکلات کے سوا کچھ نہیں ملا۔ آج حالات دیکھئے کہ ہمارے نوجوان محض ویری فکیشن کیلئے در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، جس کا کوئی رشتہ دار کبھی ملی ٹینٹ رہا ہے اُسے بھی ویری فکیشن نہیں مل رہی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ 1990میں ایسے حالات بنے کہ بہت سارے ان حالات میں بہہ گیا، یہ جو میرے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں انہوں نے بھی یہاں ملی ٹینٹ تنظیم کھڑی کی، اُن کا پاسپورٹ نہیں روکا گیا، اُن کی سرکاری نوکری نہیںکی گئی۔یہاں تو جو بچے 1990میں پیدا نہیں ہوئے تھے، انہیں بھی سی آئی ڈی ویری فکیشن نہیں مل رہی ہے۔ وہ سرکاری نوکری نہیں کرسکتے، انہیں بینک کا لون نہیں ملتا، پاسپورٹ نہیں دیا جاتا نیز ان کے مستقبل کیلئے کھلواڑ کیا جارہاہے۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ میرے دورِ حکومت میں ہم نے خاص طور پر بلیک لسٹ کا سلسلہ ختم کردیا تھا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ملی ٹینٹ کا بچہ یا رشتہ دار ملی ٹینٹ ہوتا، ان کو کسی اور کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے،اور انشاءاللہ دوبارہ ہماری حکومت آئی تو ہم یہ ویری فکیشن بلیک لسٹ کا سلسلہ ختم کردیں گے اور پی ایس اے کے قانون کو بھی ختم کرکے دم لیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے نیپال کے راستے اُن نوجوانوں کو واپس لایا جو بندوق ترک کرنا چاہتے تھے اور مجھے خوشی ہے کہ ان میں سے ایک نے بھی واپس بندوق نہیں اُٹھایا بلکہ بہت سارے آج یہاں کی سیاست کا حصہ ، کل ہی میں دو ایسے افراد سے جو سوپنچ بنے ہیں اور لوگوں کی نمائندگی اور خدمت کررہے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ بھی 2014میں ہماری حکومت جانے کے بعد 2015میں پی ڈی پی اور بھاجپا حکومت کے قیام کیساتھ ہی بندہوا۔