علی گڑھ (پریس ریلیز) حضرت مولانا سید محمد یحی ندوی اب ہمارے درمیان نہیں رہے ، وہ رب حقیقی سے جاملے،مگر ان کی باتیں اور زندگی بھر کی ان کی علمی ادائیں ہم خردوں کے لئے مثال ہیں ،وہ دراصل عظیم محقق ،مایہ ناز محدث اور علم پرور انسان تھے ،کتابوں سے گویا انہیں عشق تھا ،وہ مطالعہ کے رسیا اور علمی مواد کر جمع کرنے کے شوقین تھے۔غلہ اور اناج فروخت کر کتابیں خرید نا ان کا مزاج رہا ،وہ اناج کے پیسوں سے محض علم ومطا لعہ کے شوق میں پیرانہ سالی کے باوجود لکھنو سے علی گڑھ تک کا بے تکلف سفرکرنا ، ان کے لئے آسان تھا ،دوران سفر ان کا اثاثہ مختلف علوم وفنون کی کتابیں ہوا کرتی تھیں۔یہ باتیں آج یہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حلقہ احباب بیگوسراے کے درمیان ڈاکٹر احمد شاداب اے ایم یو نے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے کہا کہ عجم سے عرب تک میں ان کا شہرہ صرف علم وتحقیق کی وجہ سے تھا ،وہ فن حدیث میں راویوں کے احوال کے گہرے جانکار تھے،ان کی زندگی کے اس پہلو میں ہم جیسوں کے لئے سیکھنے کی بہت سی چیزیں ہیں جس پر توجہ کی ضرورت ہے ۔
وہیں پروفیسر ایس ایم جاوید اختر ڈیپارٹمنٹ آف اکنامک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بھی خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں اختصاص کی قدر رہی ہے ،مولاناندوی جس مقام پر تھے وہ صرف اختصاص کا نتیجہ تھا اور غیر معمولی علمی لگن کی وجہ سے دنیا میں یہ بلندمرتبہ ان کو ملا ہوا تھا۔
ریسرچ اسکالر ڈیپارٹمنٹ آف الیکٹرانکس انجینئرنگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جناب سید شہباز حسین نے کہا کہ مولانا ندوی سے میری آخری ملاقات 2022 میں ہوئی تھی ،وہ اپنی پرانی یادوں کو تازہ کر نے علی گڑھ بھی تشریف لانا چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ مولانا علی گڑھ تشریف لاتے یا ہم لوگ بیگوسرائے جا تے ان سے ملنے کی چاہت بڑھ جاتی،ان کی باتوں میں احساس ذمہ داری اور آگے بڑھنے کا سبق ہوتا تھا ، ان کی معلومات میں گہرائی تھی ،ایک طرح سے وہ ہمارے لئے معتبرحوالہ تھے۔ان سے مل کر بیگوسراے سے متعلق بہت سی معلومات میں اضافہ ہوتا تھا ،وہ بڑے ہمدرد تھے۔ان کی وفات سے ہم نے ایک ہمدرد کو کھویا جس کا مدتوں احساس رہے گا۔
اخیر میں ضلع کے سماجی واصلاحی سطح پر فعال رہنے والے معروف صاحب قلم عالم دین مفتی عین الحق امینی قاسمی نائب صدر جمعیةعلماءضلع بیگوسرائے نے بھی ان کی زندگی کے کئی روشن پہلوؤں پر تفصیل سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ مرحوم ندوی صاحب دل درمند کے مالک تھے ،وہ مسلمانوں کی غربت پر بھی نالاں تھے اور ان کی جہالت سے بھی دکھی تھے ،وہ مسلمانوں کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے ،ان کے سامنے ضلع کی ایک ایک بستی تھی جس کا آئنہ وہ بعض اوقات ہمیں دکھاتے تھے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مدارس اور مسلم تنظیموں کے لئے دل میں وسعت رکھتے تھے ،وہ زمیندار باپ کے اکلوتے فرزند ضرور تھے مگر مزاج غریب پرورتھا ،مدارس اور تنظیموں کو خاموشی کے ساتھ دیتے لیتے رہنا ان کی عادت تھی۔ طلبہ مدارس اور عصری اداروں میں پڑھنے والوں بچوں سے وہ ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اور علم میں گہرائی ،مطالعے میں وسعت پیدا کرنے، آگے بڑھنے کی ہمیشہ نصیحت کرتے تھے۔مفتی صاحب نے یہ بھی کہا کہ بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلانے کے قائل ہی نہیں،بلکہ وہ شدت سے حامی تھے ،وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹیاں اعلی تعلیم پائیں گی تب روز گارسے جڑیں گی ،ٹیچرس بنیں گی ،غریبوں کو لے گی دے گی ،جب ہاتھ خالی ہوگا تو وہ چاہ کر بھی نہ گھر والوں کا اورنہ ضرورت مندوں کا تعاون کرسکیں گی۔اس لئے خاتوپور بیگوسراے میں بچیوں کے ادارے معہد عائشہ الصدیقہ کے قیام سے کافی خوش تھے اور اس کی تعلیمی اور مالی خبر لیتے رہتے تھے ۔اس موقع پر اردو ادب چینل سے وابستہ جناب خورشید صاحب جمال پور علی گڑھ بھی موجود تھے۔احباب نے اپنے اپنے طور پر مغفرت اور بلندئ درجات کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام بھی کیا اور پسماندگان کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کر صبر وسکون کی دعائیں کیں۔
—