ایمسٹرڈم: نیدرلینڈمیں اسلامی اداروں کے بارے میں ریاست کی خفیہ تحقیق پر ردعمل کا اظہار کیا۔ ہالینڈ میں ریاستی اور بین المسلمین کمیونیکیشن آرگنائزیشن (سی ایم او) کے صدر محسن کوکتاش نے روٹرڈیم میں پریس کو ایک بیان میں کہا کہ ریاست نے میونسپلٹی کے بعد مسلمانوں اور اسلامی اداروں کے بارے میں خفیہ طور پر چھان بین کرنے کی وجہ 2010 کے بعد ملک اور یورپ میں اسلامو فوبیا اور نسل پرستی تھی۔
یہ بتاتے ہوئے کہ ہالینڈ کے بہت سے ریاستی اداروں میں اسلام اور نسل پرستی کے خلاف دشمنی پائی جاتی ہے، کوکتاش نے زور دے کر کہا کہ اس امتیازی سلوک کی وجہ سے ریاست میں مسلمانوں کے اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیدرلینڈز میں رہنے والے مسلمانوں کو بیدار ہو جانا چاہیے اور نیدرلینڈ کو اپنے ملک کے طور پر دیکھنا چاہیے، اور ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فراہمی کے لیے کوششوں کو بڑھانا چاہیے۔
اسلامک کمیونٹی نیشنل وژن آرگنائزیشنز ساؤتھ ہالینڈ ریجن فارن ریلیشنز کے صدر کنعان اسلان نے کہا کہ "مسلمان ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ہمیشہ شفاف رہیں گے، لیکن ہم نیدرلینڈ کی حکومت اور مقامی میونسپلٹیز سے اسی شفافیت کی امید رکھتے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ عدم تحفظ کے ماحول کو بہتر بنائیں۔
نیدرلینڈزز بارہ صوبوں پر مشتمل ملک ہے اور اس کی سرحدیں مشرق میں جرمنی، جنوب میں بیلجیم، شمال اور مغرب میں شمالی سمندری ساحلی پٹی کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کی سمندری سرحدیں دونوں ممالک کے ساتھ اور شمالی سمندر میں برطانیہ کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔
خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ نیدرلینڈ میں تقریبًا دس لاکھ مسلمان موجود ہیں جو یہاں کی آبادی کا 5.8 فیصد حصہ ہے۔ ان میں اکثر بیرونی تارکین وطن ہیں۔ نسلی اعتبار سے کل مسلم آبادی کا40.5فیصد حصہ ترکی سے یہاں آکر آباد ہوا۔2006ء میں نیدرلینڈز میں حجاب پر پابندی لگادی گئی تھی۔ یہ دعوٰی کیا گیا تھا کہ صیانتی نقطہ نظر سے یہ قدم اٹھایا گیا۔ تاہم اگلے ہی سال نئی حکومت آئی جس نے پابندی ہٹادی۔