’’منتھن‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ مذاکرہ میں معروف سماجی کارکن کاملک کی بقاء و استحکام کیلئے حقائق کو پیش کرنے اور نفرت کے خاتمہ کیلئے بات چیتشروع کرنے پر زور
حیدرآباد(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک) ملک کے موجودہ حالات میں تبدیلی کےلئے ہر فرد کو اپنی مادری زبان میں رابطہ کو مستحکم کرتے ہوئے ہر شخص سے تبادلہ خیال کی کوشش کرنی چاہئے اور ملک کی بقاء و استحکام کےلئے لازمی ہے کہ ہم حقائق کو پیش کرتے ہوئے نفرت کے خاتمہ کو یقینی بنانے کے لئے بات چیت کے دور کو شروع کریں۔ حالات کو تبدیل کرنے کے لئے طویل مدتی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اب سیاسی جماعتوں کا اتحاد بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کو یقینی بنانے کا متحمل نہیں ہے بلکہ عوامی جدوجہد کے ذریعہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔ممتاز سماجی کارکن یوگیندر یادو نے ’’منتھن‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک مذاکرہ کے دوران ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس نے 90 سال کی جدوجہد کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے اور جس وقت آرایس ایس کارکنوں کا چڈی گینگ یا نیکر گینگ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا، اس وقت وہ اپنا سر جھکائے کام کرتے رہتے تھے ،جس کے نتائج آج آپ کے سامنے ہیں۔انہو ں نے کہا کہ کبھی کبھی ہمیں پاکستان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے جس میں سب سے اہم جمہوریت کا تحفظ ہے ۔
یوگیندر یادونے کہا کہ پاکستان کے عوام نے کئی مرتبہ جمہوریت کے لئے جدوجہد کی لیکن ہندستانی شہریوں کو کبھی اس کی ضرورت پیش نہیں آئی جس کے سبب ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ انہو ںنے بتایا کہ ملک بھر میں مخالف بی جے پی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی بات کی جا رہی ہے لیکن یہ کوشش بھی رائیگاں ثابت ہوگی کیونکہ جو منافرت پھیلائی جا رہی ہے اس کا مقابلہ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ ہی کیا جاسکتا ہے اور حق بیانی و عوامی جدوجہد ہی اقتدار کی تبدیلی کی راہ ہموارکرسکتی ہے ۔ یوگیندر یادو نے مخالف مودی پروپگنڈہ ترک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم جب بھی ہندستانیوں سے بات کرتے ہیں وہ مثبت نظریات اور انہیں حاصل ہونے والے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں اور اچھے خواب دکھاتے ہیں ایسی صورت میں حزب مخالف اگر صرف منفی تحریک چلائے تو عوام اسے قبول نہیں کرتی بلکہ وہ اچھے دن اور اچھے خواب پر یقین کرنے لگتے ہیں اسی لئے مثبت فکر کو فروغ دینے اور برسراقتدار جماعت سے اچھی پالیسی ومنصوبوں کے علاوہ فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے عوام کو راغب کیا جاسکتا ہے۔ یوگیندر یادو نے کہا کہ جنوبی ہند میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا اثر نہ ہونے کو خام خیالی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں اپنا مستحکم وجود رکھتی ہے اور تلنگانہ میں بھی بی جے پی مستحکم ہورہی ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ کیرالہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا وجود نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کیرالہ میں آر ایس ایس کافی حد تک مستحکم ہوچکی ہے اوروہ دن دور نہیں ہے کہ وہ اپنے سیاسی محاذ کے لئے راستہ صاف کردے۔
’’ جمہوریت کے ازسرنو حصول‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اس مذاکرہ کے دوران یوگیندر یادو نے کہا کہ بھارت جوڑو یاترا سے بی جے پی اقتدار سے بے دخل نہیں ہوگی لیکن بھارت جوڑو یاترا کا جو فائدہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس یاترا سے قبل کوئی بھی ’’اڈانی‘‘ یا ’’آر ایس ایس ‘‘ کا نام لیتے ہوئے ان کے خلاف کہنے کی جرأت نہیں کرتا تھا لیکن بھارت جوڑو یاترا نے ہندستانی شہریوں میں یہ جرأت پیدا کردی ہے کہ وہ اڈانی اور آر ایس ایس کے خلاف کھل کر بول سکیں۔ سیاست نیوزکے مطابق انہوں نے سوال جواب کے دوران کئے گئے ملک کے دستوری اداروں کو یرغمال بنائے جانے کے متعلق استفسار پر کہا کہ بی جے پی سے بہت پہلے ملک کے دستوری اداروں کو یرغمال بنائے جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا لیکن اس دور میں جمہوریت پائیدار اور مستحکم ہونے کے سبب عوام نے حکومت کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی اور ایسا کرنے والوں کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کرنے والی طاقتور سیاسی قوتوں کوشکست سے دوچارکیا۔ یوگیندر یادو نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو پامال ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ان عوامی جدوجہد کا حصہ بنیں جو کہ زمین پر کی جا رہی ہیں ۔ کسان آندولن‘ مخالف سی اے اے تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عوامی تحریکات حکومت کے لئے پریشان کن ثابت ہوئی ہیں۔ یوگیندر یادو نے طویل مدتی جدوجہد کی منصوبہ بندی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 1947کے حالات اور واقعات جاننے والوں سے اگر سکھ ۔مسلم تعلقات کے احیاء کے متعلق استفسار کیا جائے تو وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ان مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تعلقات استوار ہونے کے لئے 200 برس سے زیادہ کا وقت لگے گا لیکن دنیا نے دیکھا کہ اندرون 75 سال مخالف سی اے اے تحریک کے دوران سکھ۔مسلم اتحاد کی کئی مثالیں سامنے آئی اور اسی طرح کسان آندولن کے دوران بھی دونوں مذاہب کے ماننے والوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔اسی لئے مایوس ہونے اور ثقافتی غلامی کا شکار ہوتے ہوئے انگریزی میں مذاکرات کے بجائے اپنی مادری زبان میں لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہیں سمجھانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک آزادی کے کئی قدآور قائدین کو انگریزی پر عبور حاصل تھا لیکن وہ اپنے جذبات و احساس اپنی مادری زبان ‘ مقامی زبان میں عوام کے درمیان پیش کرتے اور لکھا کرتے تھے تاکہ ا ن کے نظریات عوام تک پہنچیں۔ م