اردو کے سرمایے کو دیوناگری رسم الخط میں شائع کر کے اسے ہندی کی وراثت کے طور پر مشتہرکرنے کا لگ رہاہے الزام
نئی دہلی: سہ روزہ جشن ریختہ کے آخری دن سوشل میڈیا پراردو زبان و وادب کے حوالے سے ادارہ کی سرگرمیاں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور بہت سے لوگ ادارہ ‘ریختہ’ کی سرگرمیوں کی یہ کہہ کر پذیرائی کررہے ہیں کہ انٹری فیس کے باوجود یہاں بڑی تعداد میں لوگ آرہے ہیں اور یہاں کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں, وہیں کچھ لوگوں کی جانب سے ریختہ پر اردو کی وراثت کو ہندی میں منتقل کرنے اوراردو کے اثاثوں کے ذریعہ ریختہ پر دیوناگری کے قدو قامت میں میں اضافہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا جارہاہے۔
جشن ریختہ میں سات گھنٹے گزارنے کے بعد اردو کے معروف نقاد حقانی القاسمی نے اپنے محسوسات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ’ریختہ کے جشن میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ انٹری فیس کی وجہ سے بھیڑ کم ہوگی مگر وہاں تو ہجوم دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا ۔ریختہ سے محبت کرنے والوں کی واقعی کمی نہیں ہے غیر اردو دان حلقہ کی کثرت اور بھی حیرت میں ڈال رہی تھی ریختہ اپنے ہر تجربے میں کامیاب ہے ‘۔ حقانی القاسمی آگے لکھتے ہیں کہ کہ’خوشی کی بات یہ ہے کہ برسوں سے جن شخصیتوں سے ملنے کی آرزو تھی ان سے بھی ملاقات ہو گئی ‘۔
اردو کے معروف استاد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد جناب کوثر مظہری نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ ‘ریختہ والے اردو رسم الخط کے ساتھ بھونڈا مذاق کر رہے ہیں… میں اس کی مذمت کرتا ہوں…’۔دوسری جانب فیس بک پر شاہد حبیب فلاحی نے لکھا ہے کہ”بزرگوں نے ریختہ کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے جن خدشات کا اظہار کیا تھا اور جنھیں بہت سے دانشور واہمہ قرار دے رہے تھے، وہ سارے سچ ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ ریختہ کے عزائم شروع سے ہی یہ نظر آ رہے تھے کہ وہ اردو کے سرمایے کو دیوناگری رسم الخط میں شائع کر کے اسے ہندی کی وراثت کے طور پر مشتہر کرنا چاہتا ہے۔ جشنِ ریختہ 2023 اس کا بین ثبوت پیش کر رہا ہے ۔ اردو کے دانشوران اب بھی نہ جاگیں تو ہندوستان سے اردو کا جنازہ اٹھتے دیر نہیں لگے گی”۔
شاہد حبیب فلاحی کی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اردو کے معروف لکھاری فاروق ارگلی لکھتے ہیں ‘جاگ کر بھی کیا کرلیں گے۔۔ہر زبان کا ادب دوسری زبانوں میں منتقل ہوتا ہی ہے اس سے نقصان کیا ہے۔آپ اپنا کام کرتے رہیں۔کسی کو روک تو نہیں سکتے’۔ فاروق ارگلی کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ‘اردو شاعری کی قدردان ہندی میں زیادہ ہیں۔اردو والے تو اپنی وراثت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ریختہ کو دوش دینا بیکار ہے’۔اس ضمن میں اسامہ شعیب علیگ کا لکھنا ہے کہ”بلاوجہ پریشان ہو رہے ہیں، اردو طبقہ کا کسی نے ہاتھ نہیں پکڑا ہے، وہ اپنے حساب سے بنا لیں، ریختہ کی اپنی پالیسی ہے، وہ اسی حساب سے کرے گا… ان سے توقع ہی کیوں…”۔
ریختہ اور جشن ریختہ پر رائے زنی کرنے والی پوسٹس کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ ‘جتنی منہ اتنی باتیں’ والی صورتحال ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہی ایک دوسرے استاد خالد مبشر کی رائے ہے کہ ‘جشنِ ریختہ کو اب جشنِ دیوناگری اردو کا نام دے دینا چاہیے۔اردو رسم الخط ڈھونڈتے رہیے۔کہیں کہیں اکا دکا نظر آجائے گا بس۔ریختہ پبلی کیشنز کے اسٹال پر سیکڑوں کتابوں کے درمیان ایک بھی کتاب اردو میں نظر نہیں آئی۔اس سال جشن ریختہ میر تقی میر کے نام منسوب کیا گیا ہے۔بینرز میں میر کے سیکڑوں اشعار لکھے گئے ہیں۔سب کے سب دیو ناگری میں’۔خالد مبشر نے اسے تماشہ قرار دیاہے اور اس بابت انہوں نے فیس بک پر ویڈیو بھی شیئر کی ہے۔ خالد مبشر کی ایک اورویڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ ریختہ پبلی کیشن کے اسٹال میں ایک بھی اردو کتاب موجود نہیں ہے۔
ادھر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے شاہ زماں خان نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ریختہ کے حوالے سے میں نے گزشتہ سال جن خدشات کا اظہار کیا تھا. اس سال جشن ریختہ میں وہ ساری باتیں درست ثابت ہورہی ہیں. ریختہ اردو فروغ کے نام پر اردو رسم الخط کو تبدیل کرنے کے مشن پر کام کررہا ہے. ریختہ بڑا پلیٹ فارم ہے اور اس نے اردو کے لیے کافی کام کیا ہے لیکن اب ان کے ارادے نیک نہیں لگتے. آپ سب کی کیا رائے ہے. اس ضمن میں ابصار فاطمہ نامی یوزر نے لکھاہے کہ”ایک اردو رسم الخط میں پڑھی جانے والی کتاب ہندی میں چھپے گی تو زیادہ قارئین تک پہنچے گی۔ اردو رسم الخط ختم تب ہوگا جب اس میں تخلیقی کام ہونا رک جائے گا۔ صرف کسی زبان میں ترجمے یا الگ رسم الخط میں چھاپنے سے فرق نہیں پڑتا”۔
اسی حوالے سے طیب فرقانی نے لکھا ہے کہ "اس سلسلے میں تھوڑا ٹھہر کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، یعنی یہ رسم الخط کا معاملہ اتنا سرسری نہیں ہے، ریختہ کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے، کیوں کہ ریختہ کا مقصد اردو کو ہندی میں منتقل کرنا تو نہیں تھا، اس کا مقصد اردو کو فروغ دینا تھا، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ریختہ کی تنظیم کو کھڑا کرنے میں اردو کی دوسری تنظیموں نے اس کا تعاون کیا، اگر اردو پر ریختہ کا احسان ہے تو اہل اردو کا ریختہ پر بھی احسان ہے، ایسے میں رسم خط کے سلسلے میں پیدا شدہ تشویش کو اتنا سرسری نہیں لیا جاسکتا، جتنا یہاں پر تبصرہ کرنے والے لوگ لے رہے ہیں”.
اسی بابت امیر نہٹوری نے اپنے تبصرہ میں لکھا ہے کہ”ایک ریختہ ہی نہیں اردو نام سے وابستہ سیکڑوں انجمنیں تنظیمیں اردو اداروں کے منتظمین ممبران اپنے پیغامات اردو میں لکھنے سے قاصر ہیں حد تو یہ ہے کہ نامور شعرإ ادبا جو اردو کی بدولت شہرت عزت دولت کما رہے ہیں اردو رسم الخط سے چشم پوشی کھل کر رہے ہیں ۔اسی سبب معاشرے سے اردو زبان اپنی پہچان کھو رہی ہے "۔
فیس بک پر اپنی دو ٹوک رائے رکھنے کے حوالے سے اردو کے معروف قلمکار ابرار مجیب کی رائے توجہ طلب ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ”ریختہ نے اردو ادب کا سرمایہ مختلف لائبریری، انفرادی ادیبوں اور لوگوں کے ذاتی ذخیرے سے ایک معاہدہ نما کاغذ کے ٹکڑے پر دستخط کراکے حاصل کیا ہے۔اگر ریختہ ان متون کا بلا اجازت ھندی یا اردو یا الکٹرانک فارم میں تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے تو سبھی کو چاہئیے کہ وہ ریختہ کو قانونی نوٹس بھیجیں اور اپنی کتابوں کو ویب سائٹ سے بھی اتارنے کے لیے کہیں۔ تجارت کا مطلب منافع اور اگر ریختہ اداروں اور افراد کو منافع کا حصہ نہیں دیتا تو انہیں قانونی ایکشن لینے کا پورا حق ہے”۔
اردو کے ممتاز صحافی اور’استاد’ زین شمسی ایسے معاملہ میں خاموش رہیں اور لب کشائی نہ کریں ،یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں اظہارخیال کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا ہے کہ’املا کی درستگی میں پھنسا اردو طبقہ ریختہ کی دیوناگریت پر چراغ پا ہے؟’ زین شمسی کی پوسٹ پر تبصرہ کرتےہوئے نیشنل بک ٹرسٹ سے وابستہ شمس اقبال نے لکھا ہے کہ’یہ اُردو تہذیب اور وراثت کا جشن ہے رسم الخط کا نہیں۔اس میں reaction کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہر کسی کو حق ہے کہ اس سے بہتر کر کے دکھائےصرف اعتراض کرنا مقصد ہے ، تو کریں- ریختہ کے منتظمین پر کیا فرق پڑے گا’۔ادھر معروف لکھاری فاروق ارگلی کی ایک پوسٹ پر سبکدوش ایسوسی ایٹ پروفیسر ارشد عبدالحمید کا ردعمل کچھ یوں ہے’یہ میلہ اردو زبان کی مقبولیت کو ہندی والوں سے کیش کرانے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ اس سے زبان کی ایک چھوٹی سی خدمت تو ضرور ہوتی ہے لیکن تجارتی فروغ زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے اسے صد فی صد اردو کی محبت کے خانے میں رکھنا دشوار ہے۔وہاں اردو رسم الخط میں نہ کوئی بینر ہے ، نہ ان کے پبلیکیشن اسٹال میں کوئی اردو رسم الخط کی کتاب۔ ہندی یا رومن بھی ضرور ہو لیکن اسی تناسب میں اردو رسم الخط نہ ہو تو اسے اردو کا میلہ کہنا درست نہیں’۔
ایسا نہیں ہے کہ ریختہ کے حوالے سے اردو والوں نے زیادہ تر منفی تبصرے ہی کئے ہیں،بلکہ بہت سے اردو کے قلمکار اور صحافی ایسے بھی ہیں،جنہوں نے اردو کیلئے آنسو بہانے والوں کو میدان عمل میں کودنے اور اردو کیلئے کام کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔اس ضمن میں غوث سیوانی لکھتے ہیں’ریختہ پر اعتراض کرنے والوں کو خود آگے آکر اس سے بہتر کام کرنا چاہیے’۔
اندور سے تعلق رکھنے والے مسعود بیگ تشنہ نے تو ” اردو یا ناگری” کے عنوان سے ایک قطعہ ہی لکھ ڈالا ہے۔ ان کے محسوسات کچھ یوں ہیں:
اردو کی رخصتی کا ہے ماتم
یا ہے یہ ‘جشنِ ریختہ’ کی خوشی
کیسی "تشنہ” ہے خدمتِ اردو
اردو ہے صاف صاف اب ہندی
یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ معروف نقاد حقانی القاسمی نے "ریختہ کے جشن میں ایک دن اور-دل ہے کہ مانتا ہی نہیں” کے عنوان کے تحت اپنے دوسرے ‘ وزٹ ‘ کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’آج سوچ رہا تھا کہ جشن ریختہ نہ جاؤں کہ بہت سے کام نمٹانے تھے مگر دل ہے کہ مانتا نہیں سو ہو کے مجبور جشن ریختہ کی طرف چل پڑا آج بھی وہی گہما گہمی وہی رونق ورعناءی تھی بھیڑ اتنی تھی بزم خیال تک پہچنے میں کافی دیر لگی وہاں ایک ڈرامہ چل رہا تھا بہت مزہ آیا’ ۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ’ دیوناگری میں میر تقی میر کے شعر دیکھ کر تعجب ہوا مگر جب ہندی کے بک اسٹال کی طرف جانا ہوا تو دیکھا کہ ہندی میں اردو شاعری کا اچھا خاصا ذخیرہ ہے اور زیادہ تر لوگ غالب میر اور جون ایلیا وغیرہ کا مجموعہ خرید رہے تھے گویا بینر کے یہ اشعار بھی ان کے لیے محرک ثابت ہوئے جبکہ انہی شاعروں کے اردو مجموعے یونہی پڑے رہتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں کچھ برسوں قبل ورلڈ بک فیر میں جو کتاب سب سے زیادہ فروخت ہوئی وہ دیو ناگری میں جون ایلیا کا شعری مجموعہ تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندی میں کتاب کلچر زندہ ہے جبکہ اردو میں کباب تہذیب کو تیزی سے فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ مجھے اچھا لگا کہ زیادہ تر ہندی بک اسٹال کے نام اردو میں بھی لکھے ہوئے تھے۔ 8بجے شب میں جب ریختہ سے باہر نکل رہا تھا تو دیکھا کہ ایک ہجوم اندر داخل ہو رہا ہے ۔ ایک منظر تو مجھے ادبھت کر گیا کہ جن کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے انہیں بھی زمین پر بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ریختہ کی کامیابی دیکھ کر رشک آتا ہے’۔