نئی دہلی: علامہ اقبال کے یوم ولادت کے موقع پر 9 نومبر کو اُردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائیٹڈ مسلم آف انڈیا کے اشتراک سے بستی حضرت نظام الدین میں واقع غالب اکیڈمی میں ایک اہم تقریب منعقد ہوئی جس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق، پروفیسر ایمریٹس دہلی یونیورسٹی نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم علامہ ڈاکٹر اقبال کے یوم پیدائش پر عالمی یوم اُردو منا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کا وصف ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں میں اتنا بڑا شاعر، مفکر، دور اندیش پیدا نہیں ہوا۔ اقبال کی شاعری میں قوم کی تقدیر بدلنے کی وہ طاقت پوشیدہ ہے جو وقتاً فوقتاً ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اقبال کو لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال ہماری زندگی اور ثقافت کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ آج ہم جو بھی رسالہ، میگزین، اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں اس میں ڈاکٹر علامہ اقبال کے اشعار نظر آ جاتے ہیں۔ آج اقبال پر 6 ہزار کتابیں لکھیں جا چکی ہیں اور 34 زبانوں میں ان کی کتابوں کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ تاہم جس کثرت سے آج علامہ اقبال کو پڑھا جاتا ہے کسی دوسرے شاعر کو نہیں پڑھا جاتا۔
پروفیسر عبدالحق نے شرکاء سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بچوں کو اُردو پڑھنا، لکھنا اور بولنا ضرور سکھائیں تبھی آپ اقبال کو اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ اُردو کے حوالے سے پروفیسر عبدالحق نے کہا کہ آج اُردو کیلئے ماحول بہت ساز گار ہے اور روزگار کے بھی نئے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ اسی لئے اُردو طبقے کو مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ فخر محسوس کرنا چاہئے کہ ہم اس زبان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے الفاظ جب بولے جاتے ہیں تو لوگ سن کر خوش ہوتے ہیں۔
پروگرام کے روحِ رواں ڈاکٹر سید احمد خاں نے کہا کہ آج سے 27 سال قبل ہم نے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے یوم پیدائش 9 نومبر کوعالمی یوم اُردو منانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ آج پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی اُردو سے محبت کرنے والے افراد موجود ہیں وہ اپنے اپنے طور پر اُردو کی بزم سجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُردو زبان کو بھلے ہی موجودہ دور میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُردو زبان نامساعد حالات میں بھی پھل پھول رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی یوم اُردو منانے سے ایک طرف لوگوں میں اُردو کو درپیش مسائل کو عوامی سطح پر لانے کیلئے مدد ملتی ہے اور دوسری طرف جو اُردو سے محبت کرتے ہیں اور اپنے اپنے فیلڈ میں اُردو کی جو خدمت کر رہے ہیں ان کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملتا ہے۔ علاوہ ازیں اس دوران وہ اُردو کی ترقی کیلئے اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں جو مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جہاں کہیں بھی رہیں ہمیں اُردو زبان کا استعمال کرنا چاہئے، یہی اُردو کی سب سے بڑی خدمت ہے۔۔ پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اُردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیئرمین شہپر رسول اور ڈاکٹر ایس فاروق نے شرکت کی۔
تقریب سےاُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے خطاب کیااور کہا کہ میں ڈاکٹر سید احمد خاں اور اُن کے رفقاء کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے 27 سال قبل جو چراغ روشن کیا تھا اس کی روشنی سے اُردو کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بچوں کو درس دیتا تھا تو دوسری زبانوں کے اکثر طلباء یہ کہتے تھے کہ سر ہمیں اُردو پڑھ کر کیا فائدہ ہوگا۔ میں جواب میں کہتا تھا کہ اُردو سیکھنے کے بعد آپ بات چیت کا ڈھنگ سیکھ جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو شخص اُردو سیکھ جاتا ہے وہ نہ صر ف اُردو بلکہ ہر زبان کے الفاظ کی ادائیگی پورے تلفظ کے ساتھ ادا کرے گا۔ اُردو زبان اور تہذیب صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ وہ پورے ہندوستان کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اُردو کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنا بھی احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اُردو کی کتنی خدمات کر رہے ہیں۔ آج اگر اُردو کو فروغ دینا ہے تو ہمیں اُردو کلچر کو بڑھاوا دینا ہوگا۔پروگرام سے کئی دیگر نامی گرامی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پرماہنامہ سائنس ورلڈ، نئی دہلی کے سابق ایڈیٹر محمد خلیل کو اردو زبان کے لیے ان کی سائنسی خدمات پر پروفیسر محمد شفیع علیگ ورلڈ اردو ڈے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی۔ علامہ اقبال برائے ادب ایوارڈ، انجم نعیم کو مولوی محمد باقر ایوارڈ برائے صحافت، مولانا عبدالغفار صدیقی المعروف دانش نورپوری کو شاعری کے لیے حفیظ میرٹھی عالمی یوم اردو ایوارڈ، شاہد الاسلام (دہلی) کو محفوظ الرحمٰن عالمی یوم صحافت کا ایوارڈدیاگیا۔اس کے علاوہ صغیر احمد (جے پور)، شکیل اختر (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) ، وویک شکلا (دہلی) ، نعیمہ جعفری پاشا (دہلی) ، انوار الوفاء اعظمی (دہلی)، مجاہد سید (لکھنؤ) ، ڈاکٹر صاحب ٹی آر رینا (جموں)، انصاری شکیل مصطفیٰ (مالیگاؤں)، اے یو آصف (دہلی) ، سید تنویر حسن نقوی (امروہہ) ، ڈاکٹر سراج احمد قادری (خلیل آباد)، ڈاکٹر سید تنویر حسن نقوی،مصباح احمد صدیقی علیگ (امروہہ) ، سلمان خلیل آبادی (سنت کبیر نگر) ، زیڈ حسن (متھرا) ، عشرت ظہیر (دہلی) ، ڈاکٹر محمد مستمر (سہارنپور) ، وصی الرحمان عثمانی (دہلی) ، محمد تسلیم (دہلی)، ڈاکٹر خالد رضا خان (دہلی) ، مولانا محمد رحمانی (دہلی) ، ایم ڈبلیو انصاری (آئی پی ایس، بھوپال) ، ولی احمد خان (احمد آباد) ، گلزار احمد ، ڈاکٹر راشد جمال شمسی اور البلاغ پبلی کیشن (دہلی) کو بھی ایوارڈ سے نوازاگیا۔